رفتہ رفتہ چاٹ چکی ہے خاموشی دروازوں کو

رفتہ رفتہ چاٹ چکی ہے خاموشی دروازوں کو
قطرہ قطرہ پھیل رہی ہے تنہائی دیواروں پر
کالے سورج کے گونگے زمانوں میں ہیں
ہم تو برسوں سے خالی مکانوں میں ہیں
وقت چہروں کو کُھرچنے کا بہانہ ڈھونڈے
اور ہر جسم پر ایک خول زمانہ مانگے
میں خدا بھی تو نہیں ہوں کہ تجھے مِل نہ سکوں
تُو مجھے ڈھونڈ کبھی ڈھونڈنے والوں کی طرح
لفظ و معنی کی صلیبیں، یہ کتابیں، یہ نصاب
بس میں میرے جو اگر ہوتا جلا ہی دیتا
بہت ہے زعم یہاں سب کو خود شناسی کا
ہر ایک فرد کے ہاتھوں میں آئینہ دے دیں
ذرا ذہن کی کھڑکیاں کھول دو
بہت سر پھری ہے یہ اندھی ہوا
اِک وہی ہے جو ابھی تک ہے دلِ زار کے پاس
بیٹھتا کون ہے گرتی ہوئی دیوار کے پاس
اس دور میں جینے کی سزا کاٹ رہا ہوں
ہر سانس کی رفتار میں احساسِ زیاں ہے
تری یادوں کی پتھریلی زمیں شاداب ہو جاتی
اگر آنکھوں کے صحرا سے کوئی دریا نکل آتا

0 comments:

Post a Comment

 

Blog Archive

Followers

Email Subscriptions

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

Subscribe

click the link to subscribe for updates
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...